ناموس رسالت و قانون ناموس رسالت

ناموس رسالت و قانون ناموس رسالت


قانون ناموس رسالتPenal Code-C-1860-295  قانون کی تشریح
Section 295-C. of Pakistan Penal Code-PPC
Use of derogatory remarks, etc., in respect of the Holy Prophet (peace be upon him)   Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, or imprisonment for life, and shall also be liable to fine.
قانون کی اصلاح
قانون:   نبی کریم حضرت محمدﷺ کی شان میں اہانت آمیز کلمات کا استعمال جو بذریعہ الفاظ زبانی،تحریری یا اعلانیہ، اشارتاً یا کنایتاً بہتان تراشی کرے یا رسول کریم حضرت محمدﷺ کے پاک نام کی بے حرمتی کرے، اسے سزائے موت یا سزائے عمر قید دی جائے گی۔اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
اصلاح: دفعہ 295سی میں ’’عمر قید‘‘ کا لفظ مکمل اسلامی سزا کے خلاف تھا، اس لیے وفاقی شرعی عدالت نے اکتوبر1990ء میں اپنے فیصلے میں صدر پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ 30اپریل 1991ء تک اس قانون کی اصلاح کریں اور ’’یا عمر قید‘‘ کے الفاظ ختم کریں، اور یہ کہ اگر تاریخِ مقررہ تک ایسا نہ کیا گیا تو پھر اس کے بعد یہ الفاظ خود بخود کالعدم متصور کئے جائیں گے اور صرف سزائے موت، ملک کا قانون بن جائے گا، چنانچہ مقررہ تاریخ تک یہ کام ہوسکا جس کا یہ ہوا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ الفاظ خود بخود کالعدم ہو گئے۔
دلائل از قرآن مجید
آیت1
وَمِنۡہُمُ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱلنَّبِىَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ۬‌ۚ قُلۡ أُذُنُ خَيۡرٍ۬ لَّڪُمۡ يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَيُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِينَ وَرَحۡمَةٌ۬ لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمۡ‌ۚ وَٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ رَسُولَ ٱللَّهِ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ۬
اور انہی (منافقین) میں وہ لوگ بھی ہیں جو نبی کو دُکھ پہنچاتے ہیں، اور (اُن کے بارےمیں) یہ کہتے ہیں کہ:" وہ تو سراپا کان ہیں۔" کہہ دو کہ: "وہ کان ہیں اُس چیز کے لئے جو تمہارے لئے بھلائی ہے۔ وہ اللہ پر اِیمان رکھتے ہیں، اور مؤمنوں کی بات کا یقین کرتے ہیں، اور تم میں سے جو (ظاہری طور پر) اِیمان لے آئے ہیں، اُن کے لئے وہ رحمت (کا معاملہ کرنے والے) ہیں
آیت2
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤۡذُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ لَعَنَہُمُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمۡ عَذَابً۬ا مُّهِينً۬ا
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، اللہ نے دُنیا اور آخرت میں اُن پر لعنت کی ہے ، اور اُن کے لئے ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے جو ذلیل کر کے رکھ دے گا
آیت3
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرۡفَعُوٓاْ أَصۡوَٲتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ ٱلنَّبِىِّ وَلَا تَجۡهَرُواْ لَهُ ۥ بِٱلۡقَوۡلِ كَجَهۡرِ بَعۡضِڪُمۡ لِبَعۡضٍ أَن تَحۡبَطَ أَعۡمَـٰلُكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تَشۡعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند مت کیا کرو، اور نہ اُن سے بات کرتے ہوئے اس طرح زور سے بولا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں، اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے
آیت4
لَّا تَجۡعَلُواْ دُعَآءَ ٱلرَّسُولِ بَيۡنَڪُمۡ كَدُعَآءِ بَعۡضِكُم بَعۡضً۬ا‌ۚ قَدۡ يَعۡلَمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمۡ لِوَاذً۬ا‌ۚ فَلۡيَحۡذَرِ ٱلَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنۡ أَمۡرِهِۦۤ أَن تُصِيبَہُمۡ فِتۡنَةٌ أَوۡ يُصِيبَہُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(اے لوگو!) اپنے درمیان رسول کے بلانے کو ایسا (معمولی) نہ سمجھو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بُلا لیا کرتے ہو۔ اللہ تُم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ اُس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اُن کو اِس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں اُن پر کوئی آفت نہ آپڑے، یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آپکڑے
آیت5
لِّتُؤۡمِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُڪۡرَةً۬ وَأَصِيلاً
تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اُس کی مدد کرو، اور اُس کی تعظیم کرو، اور صبح وشام اللہ کی تسبیح کرتے رہو
آیت6
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيۡرَ نَـٰظِرِينَ إِنَٮٰهُ وَلَـٰكِنۡ إِذَا دُعِيتُمۡ فَٱدۡخُلُواْ فَإِذَا طَعِمۡتُمۡ فَٱنتَشِرُواْ وَلَا مُسۡتَـٔۡنِسِينَ لِحَدِيثٍۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ يُؤۡذِى ٱلنَّبِىَّ فَيَسۡتَحۡىِۦ مِنڪُمۡۖ وَٱللَّهُ لَا يَسۡتَحۡىِۦ مِنَ ٱلۡحَقِّۚ وَإِذَا سَأَلۡتُمُوهُنَّ مَتَـٰعً۬ا فَسۡـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٍ۬ۚ ذَٲلِڪُمۡ أَطۡهَرُ لِقُلُوبِكُمۡ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَڪُمۡ أَن تُؤۡذُواْ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓاْ أَزۡوَٲجَهُ ۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦۤ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَٲلِكُمۡ ڪَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمًا
ایے ایمان والو! نبی کے گھروں میں (بلا اجازت) داخل نہ ہو، الا یہ کہ تمہیں کھانے پر آنے کی اجازت دے دی جائے، وہ بھی اس طرح کہ تم اُس کھانے کی تیاری کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو، لیکن جب تمہیں دعوت دی جائے تو جاؤ، پھر جب کھانا کھا چکو تو اپنی اپنی راہ لو، اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے نبی کو تکلیف پہنچتی ہے ، اور وہ تم سے (کہتے ہوئے) شرماتے ہیں، اور اللہ حق بات میں کسی سے نہیں شرماتا۔ اور جب تمہیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کو ذریعہ ہے۔ اور تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑی سنگین بات ہے
آیت7
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحَآدُّونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥۤ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ فِى ٱلۡأَذَلِّينَ
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل ترین لوگوں میں شامل ہیں
آیت8
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ ٱلۡأَبۡتَرُ
یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے
آیت9
إِنَّمَا جَزَٲٓؤُاْ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُ ۥ وَيَسۡعَوۡنَ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓاْ أَوۡ يُصَلَّبُوٓاْ أَوۡ تُقَطَّعَ أَيۡدِيهِمۡ وَأَرۡجُلُهُم مِّنۡ خِلَـٰفٍ أَوۡ يُنفَوۡاْ مِنَ ٱلۡأَرۡضِ‌ۚ ذَٲلِكَ لَهُمۡ خِزۡىٌ۬ فِى ٱلدُّنۡيَا‌ۖ وَلَهُمۡ فِى ٱلۡأَخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں، اور تمہارے دین کو طعنے دیتے ہوں، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آ جائیں، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں
آیت10
وَإِن نَّكَثُوٓاْ أَيۡمَـٰنَهُم مِّنۢ بَعۡدِ عَهۡدِهِمۡ وَطَعَنُواْ فِى دِينِڪُمۡ فَقَـٰتِلُوٓاْ أَٮِٕمَّةَ ٱلۡڪُفۡرِ‌ۙ إِنَّهُمۡ لَآ أَيۡمَـٰنَ لَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَنتَهُونَ
اگر وہ عہد کے بعد اپنے عہد سے پھر جائیں اور تمہارے دین پر طعن وتشنیع کریں تو کفار کے سرداروں سے قتال کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی ایمان نہیں۔ کیونکہ وہ پھرنے (اپنے عہد سے) والے ہیں
دلائل از احادیث مبارکہ
حدیث نمبر:۱
حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن حضور ﷺمکہ میں داخل ہوئے اور وہ اپنے سرپر خود پہنے ہوئے تھے جب انہوں نے اسے اتارا۔ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ ابن خطل غلاف کعبہ سے چمٹ رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس کو قتل کر دو اور مالک نے بیان کیا کہ اس دن حضورﷺاحرام کی حالت میں نہیں تھے اور الله بہتر جانتا ہے۔
حدیث نمبر:۲
نبی کریم ﷺ نے فرمایاجابر بن حیان سے کہ کعب بن اشرف (یہودی) کو مارنے کے لئے کون تیار ہے؟ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا۔ ”کیا آپ پسند فرمائیں گے کہ میں اسے مار ڈالوں۔“ تو نبی کریم ا نے اجازت دی۔ (ہاں کہی) تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دی کہ میں جب چاہوں اسے قتل کر دوں۔ نبی کریم ا نے اجازت عطاء فرمائی
حدیث نمبر:۳
حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ الله کے نبی نے انصار میں سے کچھ لوگوں کو ابورافع (یہودی) کے قتل کے لئے بھیجا اور عبدالله بن عتیک کو ان کا امیر بنایا۔ ابورافع نبی کریم ا کی شان میں گستاخی کرتا تھا اور آپ کے دشمنوں کی مدد کرتا تھا۔ وہ حجاز کی سرزمین میں ایک قلعے میں رہتا تھا۔ جب سورج غروب ہونے کے بعد اس کے قلعے تک پہنچے اور تب لوگ اپنا سامان اپنے گھروں میں (واپس) لاچکے تھے۔ تو عبدالله بن عاتک اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم اپنی جگہ پر بیٹھ جاوٴ اور میں گیٹ کے دربان سے گیٹ میں داخل ہونے کے لئے کوئی حربہ کروں گا تو عبدالله قلعے کی طرف روانہ ہوئے اور جب دروازے پر پہنچے تو انہوں نے اپنے آپ کو قصداً کپڑوں میں ڈھانپ لیا۔ تاکہ دربان انہیں (وہیں کا سمجھتے ہوئے) اندر بلالے۔ لوگ اندر جاچکے تھے اور دربان نے عبدالله کو (قلعے کے خدام) میں سے سمجھتے ہوئے کہا۔ او الله کے بندے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو اندر داخل ہو جاوٴ۔ کیونکہ میں گیٹ بند کرنا چاہتا ہوں۔ عبدالله نے اپنی کہانی میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ میں قلعے میں داخل ہو گیا اور اپنے آپ کو چھپا لیا۔ جب لوگ اندر داخل ہوگئے تو دربان نے دروازہ بند کر لیا اور چابیاں لکڑی کی ایک کھونٹی سے لٹکا دیں۔ میں اٹھا اور چابیاں لے کر میں نے دروازہ کھول دیا۔ کچھ لوگ رات کے وقت ابورافع کے ساتھ خوشگوار رات گذارنے کے لئے اس کے کمرے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب اس کے ساتھی رات کی تفریح کے بعد چلے گئے تو میں اس کی طرف چڑھا اور جب میں نے ایک دروازہ کھولا تو اسے اندر سے بند کر دیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا۔ کیا ان لوگوں کو میری موجودگی کا پتہ چلنا چاہئے۔ وہ مجھے اس کو قتل کرنے تک نہیں پکڑ سکیں گے۔ تب میں اس تک پہنچ گیا اور اسے اپنے خاندان کے درمیان تاریک کمرے میں سوئے ہوئے پایا۔ لیکن میں اس کی موجودگی کی صحیح جگہ کو نہ پاسکا۔ اس لئے میں زور سے چلایا۔ ”اے ابورافع“ ابورافع نے کہا کون ہے۔ میں اس آواز کی سمت چل پڑا اور تلوار سے اس پر وار کیا۔ لیکن میں اس پریشانی کے سبب اسے قتل نہ کر سکا وہ زبردست چلایا اور میں مکان سے باہر آگیا اور چند لمحے اس کا انتظار کیا اور تب دوبارہ اس کی طرف گیا۔ اے ابورافع یہ کیسی آواز (شور) ہے؟ ابورافع نے کہا۔ تمہاری ماں (خوار) ہو۔ ایک آدمی میرے گھر میں داخل ہوا اور تلوار سے مجھ پر وار کیا۔ میں نے اسے اور شدت سے تلوار ماری۔ لیکن اسے قتل نہ کر پایا۔ پھر میں نے تلوار کو اس کے پیٹ میں اتنا دبایا کہ اس کی کمر تک جا پہنچی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اب میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں نے ایک ایک کر کے دروازے کھولے اور پھر میں سیڑھیوں تک پہنچ گیا۔ (آخری سیڑھی تک) اور میں نے سمجھا میں آخری سیڑھی تک پہنچ گیا ہوں۔ میں نے باہر قدم رکھا۔ مگر پڑا اور چاندنی رات میں میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے ٹانگ کو اپنی پگڑی سے باندھ لیا اور آگے روانہ ہوا اور دروازے پر جا بیٹھا اور کہا کہ آج رات میں نہیں باہر جاوٴں گا۔ جب تک یہ نہ جان لوں کہ وہ مرچکا ہے۔ اگلے دن صبح (مرغ کے اذان کے وقت) موت کا اعلان کرنے والا دیوار پر کھڑا اعلان کر رہا تھا کہ میں ابورافع جو کہ حجاز کا سوداگر ہے۔ اس کی موت کا اعلان کرتا ہوں۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا اب ہم اپنے آپ کو بچائیں۔ کیونکہ الله نے ابورافع کو مار دیا ہے۔ اس کے بعد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوا اور پاک پیغمبر کے پاس پہنچ کر پورا قصہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا۔ ”اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو باہر نکالو۔“ میں نے اسے باہر نکالا آپ نے اسے ملا تو یہ ایسے ٹھیک ہوگئی۔ جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ یعنی کوئی تکلیف تھی ہی نہیں
حدیث نمبر:۴
حضرت عمیر بن امیہ سے مصدقہ روایت ہے کہ اس کی مشرکہ بہن اسے تنگ کیا کرتی تھی۔ جب وہ حضورا سے ملتا تو وہ (ان کے سامنے) حضورا کو گالیاں دیتی تھی۔ آخرکار ایک دن اس (حضرت عمیر) نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بیٹے چلائے اور کہا ہم ان قاتلوں کو جانتے ہیں جنہوں نے ہماری ماں کو قتل کیا ہے اور ان لوگوں کے والدین مشرک (کافر) ہیں۔ حضرت عمیر نے سوچا کہ اس عورت کے بیٹے غلط آدمیوں کو قتل نہ کر دیں۔ وہ نبی کریم ا کے پاس آئے اور تمام صورتحال عرض کی۔ رسول الله ا نے کہا، کیا تم نے اپنی بہن کو کیوں قتل کر دیا ہے؟ حضرت عمیر نے عرض کی وہ مجھے آپ کے متعلق تکلیف پہنچاتی تھی۔ نبی کریم ا نے اس عورت کے بیٹوں کو بلوایا اور قاتلوں کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے قاتلوں کے بارے میں کچھ اور لوگوں کے نام لئے۔ نبی کریم ا نے انہیں اطلاع دی اور اعلان کیا کہ اس (عورت) کا قتل ٹھیک ہوا ہے۔
حدیث نمبر:۵
حضرت عکرمہ سے مستند روایت ہے کہ ایک شخص نے حضورا کو گالی دی تو پاک پیغمبرﷺ نے فرمایا مجھے اس دشمن کے خلاف کون مدد دے گا۔ حضرت زبیر نے فرمایا میں۔ تب حضرت زبیر اس سے لڑے اور اسے مارڈالا۔ نبی کریم ﷺ نے اسے یہ نیکی عطاء فرمائی۔
حدیث نمبر:۷
یہ بیان کیاگیا ہے۔ فتح مکہ کے بعد حضورﷺعام معافی کا اعلان کر چکے تو آپ نے ابن خطل اور اس کی کنیزوں کو جو کہ نبی کریم ﷺ کے متعلق گستاخانہ شاعری کرتی تھیں۔ ان کے قتل کا حکم فرمایا۔
توہین رسالت کے مرتکب مجرم پر قانونی عدالتی چارج
توہین رسالت کا جرم  تمام الہامی مذاہب میں قا بل سزا جرم
توہین رسالت کا جرم تقریباً تمام الہامی مذاہب میں قابل سزا جرم ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ”یہودیت“ سے لی جاسکتی ہے۔ (تورات بک تین سے) (تورات: ۱۶:۲۴، Livities میں یہ بیان کیاجاتا ہے کہ: ”وہ جو اہانت رسول کرتے ہیں۔ ان کو یقینا سزائے موت دی جائے گی۔“ اس غلط پروپیگنڈے کو ختم کرنے کے لئے کہ توہین رسالت کا قانون صرف پاکستان ہی میں رائج ہے اور اس طریقے سے صرف ایک مخصوص طبقے کو ٹارگٹ کرنے کے لئے (یہ قانون) بنایا گیا ہے۔ (یہ تاثر بالکل غلط ہے) اس سلسلے میں ہم توہین رسالت کے قانون کو مختلف ممالک میں رائج قوانین کے حوالے سے دیکھتے ہیں
مختلف ممالک کے قوانین کا تقابلی جائزہ
افغانستان
افغانستان جوکہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ توہین رسالت کے قانون کو شریعت کی روشنی میں قتل یا پھانسی کی سزادیتی ہے۔ آسٹریلیا:قانون ناموس رسالت کے معاملے میں کچھ ریاستوں اور علاقوں میں جرم ہے اور کچھ میں نہیں ہے۔ ناموس رسالت کے سلسلے میں توہین رسالت کے مجرم کو آخری دفعہ ۱۹۱۹ء میں وکٹوریہ میں پھانسی دی گئی۔
آسٹریلیا
آسٹریا
بنگلہ دیش
برازیل
کینیڈا
ڈنمارک
مصر
اردن
کویت
ملائیشیا
مالٹا
نیدر لینڈ
نیوزی لینڈ
سعودی عرب
سوڈان
متحدہ عرب امارات
برطانیہ
یمن
امریکہ
قانون توہین رسالت  کی مخالفت ہی کیوں؟؟
سوال و جواب
جزاک اللہ

No comments:

Post a Comment

Adbox

@templatesyard